Pakistn Film Magazine in Urdu/Punjabi


A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana

Masood Rana - مسعودرانا


مسعودرانا کا ایک ریڈیو انٹرویو

مسعودرانا
کا ایک یادگار انٹرویو
جب انکی صرف دو فلمیں ہی
ریلیز ہوئی تھیں

مسعودرانا کا ایک ریڈیو انٹرویو سماعت سے گزرا جو بڑی دلچسپی کا حامل رہا۔

دس منٹ دورانئے کا یہ انٹرویو ریڈیو پاکستان کراچی کے ایک کمرشل پروگرام میں اداکار اور میزبان ایم اے سلیم نے پیش کیا تھا۔

اندازاً یہ انٹرویو 1962ء کے آخر یا 1963ء کے شروع میں لیا گیا تھا۔ اس وقت تک مسعودرانا کی صرف دو فلمیں انقلاب اور بنجارن (1962) ہی ریلیز ہوئی تھیں لیکن کراچی کے ایک نامور سٹیج گلوکار ہونے کے بعد وہ ایک مصروف اور مقبول فلمی گلوکار بن چکے تھے۔

مسعودرانا کا تعارف

مسعودرانا کا اپنے ابتدائی دور کا ایک یادگار ریڈیو انٹرویو

اس ریڈیو انٹرویو کے شروع میں مسعودرانا کا تعارف کروایا گیا کہ وہ 1938ء میں میرپور خاص میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم پائی۔ (ان کے مرقد کے کتبے پر تاریخ پیدائش 6 اگست 1941ء درج ہے)۔ 1957ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے گانا شروع کیا اور 1960ء میں کراچی چلے گئے جہاں پس پردہ گلوکار کے طور پر ان کی پہلی فلم انقلاب تھی۔

مسعودرانا کی ابتدائی دور کی فلمیں

اس انٹرویو تک ان کی جن زیر تکمیل فلموں کا ذکر کیا گیا ، ان میں شرارت ، مسٹر ایکس ، دل نے تجھے مان لیا ، جب سے دیکھا ہے تمہیں ، رشتہ (1963) ، ڈاچی (1964) ، بدنام (1966) ، بازیگر (جو بہادر کے نام سے 1967ء میں ریلیز ہوئی تھی) اور ایک غیرریلیز شدہ فلم شیشے کی دیوار شامل تھیں۔

مسعودرانا کی پہلی پنجابی فلم رشتہ (1963) کا ایک تجربہ

اس کے بعد باقاعدہ گفتگو شروع ہوتی ہے اور میزبان کے استفسار پر کہ مسعودرانا کے مسکرانے کی وجہ کیا ہے۔۔؟

جواب میں وہ یہ دلچسپ واقعہ سناتے ہیں کہ لاہور میں پنجابی فلم رشتہ کی ایک قوالی کی ریکارڈنگ کے دوران گلوکار منیر حسین کے علاوہ جو ساتھی قوال تھے ، ان میں سے ایک کے منہ میں مچھر چلا گیا تھا جس سے اس کی اونچی تان نیچی تان میں بدل گئی تھی۔ اتفاق سے اسے ایسا ہی کرنا تھا۔ اس پر اسے بڑی داد ملی کہ کیا تان لگائی ہے لیکن جب مچھر اس کے منہ میں دیکھے تو سبھی بڑے محظوظ ہوئے۔

اس موقع پر محسوس ہوتا ہے کہ مسعودرانا بڑے فخر سے اپنی لاہور کی فلم میں گانے کا قصہ سنا رہے ہیں۔ اس وقت تک وہ کراچی میں رہتے تھے اور وہاں بننے والی فلموں میں گا رہے تھے۔

مسعودرانا اور بابا چشتی

مرکزی فلم انڈسٹری لاہور میں تھی اور بابا چشتی اس وقت تک سب سے مقبول ترین موسیقار تھے جنھوں نے فلم بنجارن (1962) میں مسعودرانا کو سنتے ہی لاہور بلا بھیجا تھا اور اوپر تلے دو گیت گوا لیے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مسعودرانا ، بابا چشتی کا نام بڑے ادب و احترام سے لے رہے تھے۔

کیا مسعودرانا ایک ٹائپ گلوکار تھے؟

پھر میزبان ایم اے سلیم ، مسعورانا سے پوچھتے ہیں کہ ان کے خیال میں وہ ایک ٹائپ پلے بیگ سنگر ہیں۔۔!

اس پر مسعودرانا اپنے گائے ہوئے تین گیت گا کر ثابت کرتے ہیں کہ وہ ٹائپ سنگر نہیں بلکہ ایک ورسٹائل سنگر ہیں۔ پہلے وہ فلم بنجارن (1962) کا شوخ گیت

  • کہیں دل پہ نہ جادو کر جائے۔۔

گاتے ہیں جو میزبان کی زبانی اپنے وقت کا ایک ہٹ گیت تھا۔ پھر وہ فلم مسٹر ایکس (1963) کا سنجیدہ گیت

  • کس کے قدموں کی یہ آہٹ ہے بھلا۔۔

گاتے ہیں اور آخر میں فلم ڈاچی (1964) کے ایک مزاحیہ گیت

  • چور تے لاٹھی دو جنے تے میں تے لالہ کلے۔۔

گاتے ہیں جس پر میزبان مان جاتے ہیں کہ واقعی وہ ایک ٹائپ سنگر نہیں اور اعتراف کے طور پر ان کے ایک گیت کا یہ جملہ دھراتے ہیں کہ "یہ چھیڑ خانی ، ارے توبہ۔۔!"

مسعودرانا کے ابتدائی دور کے موسیقار

اگلا سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس وقت تک انھوں نے کس کس میوزک ڈائریکٹر کی دھنیں گائی ہیں۔۔؟

جواب میں مسعودرانا ان موسیقاروں کا نام لیتے ہیں: دیبو بھٹا چاریہ ، جی اے چشتی ، سیف چغتائی ، فتح علی خان ، حسن لطیف ، جی ایچ قادری ، این جے راٹھور ، سہیل رعنا اور لال محمد اقبال۔

بابا چشتی کا احترام

اس کے بعد ان سے پوچھا گیا کہ کس موسیقار کے دھن گانے میں آسانی ہوتی ہے تو انھوں نے برجستہ بابا چشتی کا نام لیا اور مندرجہ بالا مزاحیہ گیت کے بارے میں بتایا کہ صرف تین گھنٹے میں اسے یاد کیا اور پانچ گھنٹوں کے اندر ریکارڈ بھی ہو گیا تھا۔

اس وقت تک انھوں نے بابا چشتی کی صرف دو دھنیں (فلم رشتہ اور ڈاچی میں) گائی تھیں اور "ٹانگے والا خیر منگدا۔۔" جیسا لازوال گیت نہیں گایا تھا۔

متذکرہ موسیقاروں کی فہرست دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ میرے فلمی ریکارڈز میں ابھی مسعودرانا کے بہت سے گیت نہیں ہیں۔ ان میں سے فتح علی خان اور جی ایچ قادری کے ساتھ تو ان کا کبھی کوئی گیت نہیں سنا۔ یقیناً ایسی بہت سی فلمیں ہیں جو کبھی ریلیز نہیں ہوئیں۔ پاکستان فلم ڈیٹابیس میں غیرریلیز شدہ فلموں کا اندراج ہے لیکن یہ وہ فلمیں ہیں کہ جن کی کاسٹ کریڈٹ یا گیتوں کے بارے میں کچھ معلومات دستیاب ہیں۔

مسعودرانا کی خود اعتمادی

میزبان ایم اے سلیم کا اگلا سوال بڑا دلچسپ تھا کہ اگر ڈوئیٹ گاتے ہوئے آپ کا پارٹنر کمزور ہو تو کچھ دقت تو ہوتی ہوگی۔۔؟

مسعودرانا ، اس سوال کے جواب میں ایک منجھے ہوئے فنکار کے روپ میں بڑے اعتماد سے یہ جواب دیتے ہیں کہ "۔۔اول تو پارٹنر کمزور لاتے ہی نہیں ہیں ہم۔۔!" دھیان رہے کہ اس وقت تک مسعودرانا کی صرف دو فلمیں انقلاب اور بنجارن (1962) ہی ریلیز ہوئی تھیں اور اگلی فلم رشتہ تھی جو مارچ 1963ء میں جا کر ریلیز ہونا تھی لیکن اس انٹرویو سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ بڑے تجربہ کار گلوکار تھے اور نجانے کب سے گا رہے تھے۔

مسعودرانا نے محمدرفیع کا گیت گا کر سنایا

اس کے بعد کسی گیت کے مقبول ہونے اور ریکارڈنگ کوالٹی پر بات ہوتی ہے اور آخر میں مسعودرانا کی پسند کا گیت سنا جاتا ہے۔ وہ ریکارڈ بجنے سے پہلے گیت کا مکھڑا خود گا کر سناتے ہیں "ساتھی نہ کوئی منزل ، دیا ہے نہ کوئی محفل۔۔" بھارتی فلم بمبئی کا بابو (1960) کا یہ گیت ان کے روحانی استاد محمدرفیع صاحب کا گایا ہوا تھا جنھیں کراچی سٹیج پر گا کر وہ "پاکستانی رفیع" کہلانے لگے تھے۔

یوٹیوب پر یادگار ویڈیوز

یہ انٹرویو یوٹیوب پر محترم خورشیدعبداللہ کے چینل پر اپ لوڈ ہے جسے وہ جناب لطف اللہ خان کے آوازخزانہ سے پیش کرتے ہیں۔ اس چینل پر بڑا زبردست مواد موجود ہے جو اہل ذوق کے لیے کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں ہے۔

ایسا ہی ایک ویڈیو ایف ایم پنجاب رنگ کے یوٹیوب چینل پر ہے جس میں مسعودرانا کی پچیسویں برسی انھیں یاد کیا گیا تھا۔ معروف گلوکار انوررفیع اور آصف جاوید کے علاوہ مسعودرانا کے ایک بھائی اور دوست بھی اس پروگرام میں شامل ہیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن پر یاسمین حمید کو دیا گیا مسعودرانا کا ایک انٹرویو
مسعودرانا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے گلوکار انور رفیع ، آصف جاوید اور مسعودرانا کے ایک بھائی اور دوست


Maha Maya
Maha Maya
(1936)
Pukar
Pukar
(1939)
Zeenat
Zeenat
(1945)
Elan
Elan
(1947)



241 فنکاروں پر معلوماتی مضامین




پاک میگزین کی پرانی ویب سائٹس

"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔

پاک میگزین کا تعارف

"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔

Old site mazhar.dk

یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔

اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔

سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔




PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.